نئی دہلی،13اگست؍(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)۷۰؍ویں یوم آزادی کے موقع پرتنظیم کے صدر دفتر میں ’آزادی کے سترسال:ملک کا برا حال‘کے عنوان سے منعقد ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدرمولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ ۱۵؍ اگست کا یہ تاریخی دن ہم تمام برادران وطن کے لیے ایک تاریخی قابل فخر لمحہ ہے کہ ہم ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری ملک ہندستان میں سانس لے رہے ہیں، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری آزادی کا مطلب قومی ترانہ گانے اور ترنگے کی نقاب کشائی و سلامی جیسی چند رسمیات تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ہم جسمانی طور پر انگریزی اقتدار سے ضرور آزاد ہیں، مگر ہمیں ستر سال بعد بھی بے روزگاری، غربت،فرقہ وارانہ فسادات، معاشی بد حالی، مذہبی منافرت سے آزادی نہیں مل سکی ہے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی،جواہر لال نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد، مفتی محمد کفایت اللہ، شیخ الہند،مولانا سجاد بہاری، شیخ الاسلام مولانا مدنی اور مجاہد ملت مولاناسیوہاروی کی جدو جہد آزادی اور ان کے عظیم تصور آزادی کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کے ساتھ اس احساس کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے پیش رو مجاہدین آزادی نے جس متحدہ اور پر امن ہندستان کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا، وہ ہنوز شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ مولانا قاسمی نے ملک کے طول و عرض میں رو نما ہونے والے اقلیت کش فسادات اورگؤ تحفظ کے نام پر مذہبی منافرت کو ملک اور قوم کے لیے لعنت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندستان عالمی پیمانے پر کثرت میں وحدت اور تہذیبی تکثیریت کے لیے مشہور رہا ہے، مگر ہمارے چند اشتعال انگیز سیاسی رہ نماؤوں نے اپنے زہر آلوداقلیت اور دلت مخالف بیانات سے یہاں کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے عظیم آفاقی اور تاریخی نقوش کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مولانا نے خاص طور سے نام بنام مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں اور ان کی قرباینوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صرف ملک اور قوم کی آزادی کے لیے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی میں شرکت کی تھی، مگر جب ملک آزاد ہوا اور ہندستان کی جنگ آزادی کی تاریخ مرتب کی گئی،تو ان کے کارناموں کو یہاں کے تشددپسند جنونیوں نے تاریخ کے صفحات سے غائب کرنے کی جو مدموم کوشش کی ہے، وہ اس ملک کے جمہوری چہرے پر بد نما داغ ہے۔ انھوں نے برسر اقتدار حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ بلا تفریق مذہب سارے مجاہدین آزادی کے کارناموں کو نمایاں کرنے اور انھیں یہاں کی قومی نصاب کی کتابوں میں مناسب جگہ دینے اور ان کابرملااعتراف کرنے کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز میں بر سر اقتدار آئی ہے، قومی تعلیمی نصاب کو زعفرانی رنگ میں رنگاجارہا ہے،ملک کی فرقہ وارانہ فضا میں نفرت اور تشدد کا زہر گھولا جارہا ہے اور مخصوص اقلیتی فرقے کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ سچے وطن پرست اور محب وطن تھے، ان کے کارناموں سے صرف نظر کیا جارہا ہے اور جن لوگوں نے جنگ آزادی میں انگلی بھی نہیں کٹائی تھی، ان کی عزت افزائی کی جارہی ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت فرقہ پرستوں نے اقلیتی طبقات اور دلتوں کے خلاف تعصب اور تشدد کا جو بازار گرم رکھا ہے، اس کو دیکھ کر انگریزوں کے عہد کے ہندستان کی تصویر ذہنوں میں متحرک ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مساجد، گرجا گھروں اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے،گھر واپسی کی تحریک، تبدیلی مذہب کا ایجنڈہ، گائے کا گوشت کھانے والوں کو پاکستان بھیج دینے کا نعرہ، مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کردینے کی وکالت، ایسے دل دوز واقعات ہیں، جن سے ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت والی شبیہ عالمی پیمانے پر مجروح ہورہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ افسو س ناک بات ہے کہ ہمارے معزز وزیر اعظم اپنی زبان پر خاموشی کا قفل ڈالے ان تمام اشتعال انگیز مناظر کا عینی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ اس وقت بلا تفریق تمام مجاہدین آزادی کے کارناموں اور ان کی بے لوث قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے اسلاف و اخلاف کو ان قربانیوں کا بھرپور صلہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ احساس کمتری کے غار سے باہر نکل کر باعزت شہری کی طرح زندگی گزار سکیں اور ہندستان کی جمہوریت اور سیکولرازم کا علم پورے عالم میں بلند ہوسکے۔اسی طرح مجاہدین آزادی کوسچا خراجِ عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے۔